مصنف

ایک مصنف کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اس کی بائیوگرافی قاری تک پہنچائ جاۓ اس سلسلےمیں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ شادیوال ٹاون گجرات شہر سے صرف۸ کلو میٹرجانب جنوب واقع ہے اس کی آبادی تقریبا چالیس ہزار نفوس کے قریب ہےپانچ صدی پہلے یہ ٹاون دریاۓ چناب کے دائیں کنارے آباد ہوا اور وڑائچ قبیلہ اس کا بانیان میں سے ہے

قلب حسین وڑائچ بھی اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ا ن کے آباؤ اجداد صدیوں پہلے یہاں آباد ہوۓ ان کے دادا کا نام حسن محمد والد فتح دین اور والد کا نام چوہدری احمد خان ولد حسن محمد ہے

قلب حسین وڑئچ کی پیدائش بمطابق سرٹیفک میڑک ۵مئ ۱۹۴۳ ہے ابتدائ تعلیم اسلامیہ ہائ سکول شادیوال سے حا صلُ کی اور ۱۹۵۹ میں میڑکُ کیا ۱۹۶۲ میں زمیندار کالج سے ایف اے پاس کیا ۱۹۶۵ میں اسلامیہ کالج سکھر سے بی اے کی ڈگری حاصلُ کی ۱۹۶۷ میں یکم فروری کو بطور سب انسپکڑ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سکھر میں تعیناتی ہو گئ پھر با سلسلہ ملازمت مختلف شہروں میں تعیناتی رہی اور مورخہ ۴-۵-۲۰۰۳ کو ریٹائرڈ ہو گے

جہاں تک قلب حسین وڑائچ کے ادب کا تعلق ہے یہ کوئی ان کو وراثت میں نہیں ملا اور نہ ہئ کوئی ان کے خاندان میں لکھاری تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں لکھنے کی صلاحیت تھی کیونکہ ان کی میڑک کی سند پہ قلب حسین وفا لکھا ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ کوئ جوہر تھا جو چھپا ہوا تھا کبھی کبھی اپنی ڈائری میں کوئ فقرہ یا شعر لکھ دیتے تھے اور سب سے پہلے جو جملہُ تحریر کیا وہ یہ تھا “”” علم محسوسات الفاظ خلق کرتا ہے “””

شروع میں جو لکھتے تھے اس کا ریکاڈ نہیں ہی ہے ویسے لکھ دیا اور رکھ دیا مگر جب ریٹائرڈ ہوے تو اس کے بعد ایک رات ایسی آئ کہ رات کو جب سوے تو قلب حسین اور تھے اور جب بیدار ہوے تو اور تھےیہ ۲۶،۲۵اگست ۲۰۰۳ کی درمیانی رات تھی اور بس اس دن سے قلم ان کے ہاتھ میں رہا اور مرتے دم تک ان کا قلم سچی حقیقتیں لکھتا رہا اور ان کے ہاتھ کے لکھے ہوے ۲۰۰۰۰ ہزار صفحات ۱۸۰ والیم کی صورت میں موجود اور محفوظ ہیں آپ جب اپنے مصنف کے بارے پڑھ رہے ہوں گے اس وقت وہ اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں ۲۶ جولائ ۲۰۲۰ عین مغرب کی اذان کے وقت قلب حسین اس جہاں سے اس جہاں چلے گے اور اپنی ادبی وراثت اپنی بٹیی کنول فاطمہ کو دے گے یعنی کے میں جو ابھی آپ سے مخاطب ہوں میرے لیے بھی یہ انتہائ فخر کا مقام ہے کیہ میں ابو جی کے جانے کے بعد ان کے قاری سے ان کے بارے بات کر رہی ہوں

کچھ باتیں قلب حسین دڑائچ کی زبانی

میں مسلسل بیٹھ کے لکھنے کا عادی نہیں ہوں اور نہ کوئی بہت زیادہ مطالعہ کرتا ہوں یہ کوئی عنایت ہے جو نعمت کی صورت میرے قلم پر نازل ہوئی یہ نجف والے کی عطا ہے ورنہ میں نہ تو کوئی لکھاری تھا اور نہ ہی شوق تھا کہ میں شاعر بن جاوں مگر میرے پروردگار کو جو منظور تھا وہ ہوا میرے ذمہ جو کام تھا وہ میں نے کرنا تھا
محفوظ ہو جانا کسی نعمت سے کم نہیں جن سے اس پاک ہستی نے کام لینا ہوتا ہے وہ ان کی زندگی کی بھی حفاظت فرماتا ہے میں شکر گزار ہوں اپنے پروردگار کا جس نے مجھے لوح وقلم کی پرورش کا ہدیہ کیا ہے اور میں جو تحریر کرتا ہوں دراصل وہ میرا کشف القلوب ہے اور ابدی حقیقتیں ہیں

میرا قاری جب میری کتب کا مطالعہ کرے گا تو اس کے اندر سے داد عیش نکلے گی کہ یہ سب باتیں جو اس کے اندر تھیں مگر وہ لاعلم تھا دراصل یہ تحریریں کتاب حقیقت کے باب میں اخذ کی گئیں ہیں اس میں میرا کوئی فن نہیں میری شاعری میری نثر میرے افسانے دراصل انسانیت کی آپ بیتی ہے اور جن جن میں انسانیت ہے وہ میری کتابوں کا مطا لعہ کرے ان کی زندگی میں انقلاب آجاے گا اور وہ خود کو زندہ محسوس کریں گے.